top of page

Dilemma or Opportunity: Challenges for Dutch-Pakistani youth in reconciling two cultures 

Watch the Event

ایمسٹرڈم کی اوپن یونیورسٹی میں، پاکستانی برادری کی ایک سرکردہ تنظیم، ’’اوورسیز پروگریسو پاکستانیز‘‘ یا ترقی پسند پاکستانی تارکین وطن، کی جانب سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ یورپ میں مہاجرت کرنے والے پاکستانیوں کی نوجوان نسل سے مکالمہ کیا جائے جو یہاں پیدا ہوئی اور آج تعلیم یافتہ اور خود اعتماد نوجوانوں کے طور پر یورپی معاشرے کا حصہ ہے۔ ان سے سوال کیا جائے کہ گھر کے اندر اور باہر موجود دو مختلف ثقافتوں اور قدروں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی جدوجہد محض تکلیف دہ تجربات پر مشتمل تھی یا اسی جدوجہد نے ان کے لیے نئے در وا کیے۔ سیمینار کے منتظمین نے پینل پر تین پاکستانی نوجوانوں کو مدعو کیا تھا جنہوں نے اپنے شعبوں میں مہارت اور کامیابی حاصل کی۔ ان میں میڈیکل ڈاکٹر شہریار میر، محترمہ مریم محمد (قانون دان) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر، فرحان مسعود شامل تھے۔ مقامی طالب علموں، استادوں، والدین، سماجی کارکنوں اور صحافیوں اور فنکاروں کے ساتھ ساتھ یورپ کے مختلف شہروں سے آئے مہمانوں کے سبب حاضرین میں بھی ایک سماجی، نسلی، مذہبی اور صنفی تنوع موجود تھا۔ مباحثہ میں حاضرین کی دلچسپی اور شمولیت کے سبب گفتگو کا دائرہ پھیلتا گیا اور اس نوعیت کے سوالات بھی زیر بحث آئے کہ امتیازی سلوک، تعصب اور سماجی بیگانگی کی تعریف کس طرح متعین کی جائے۔ اگر پاکستان میں موجود امتیازی سلوک، مذہبی تعصب اور طبقاتی تقسیم  سے موازنہ کیا جائے تو کیا تارکین وطن کو مغربی معاشروں کا شکر گزار ہونا چاہیے یا معترض۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا مذہبی اور ثقافتی تنوع پاکستان کا اپنا ورثہ نہیں؟ اور کیا ہمیں اس تنوع پر شرمندہ ہونا چاہیے یا اس پر فخر کرنا چاہیے۔ منتظمین کی جانب سے دیے گیے ابتدائیہ میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ پاکستان جس سندھی تہذیب کا وارث ہے وہ سات ہزار برسوں پر مشتمل، دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے جہاں مہرگڑھ، موہنجودڑو اور ٹیکسلا جیسی شاندار تہذیبوں کا ظہور ہوا جو علم و ادب اور تعمیر و ترقی کا گہوارہ تھیں۔ اس تہذیب نے ان گنت عظیم فنکار، فلسفی، سماجی سائنسدان، صوفی اور مصلح پیدا کیے جنہوں نے علم دوستی اور احترام انسانیت کا درس دیا۔ اسی طرح جدید پاکستان بھی مختلف مذہبی، لسانی، نسلی اور ثقافتی شناختوں کا حامل ہے جہاں مسلم، ہندو، مسیحی، سکھ، جینی، بدھ مت کے پیروکار اور فطرت پرست سبھی موجود ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی میں تقریباﹰ پندرہ سو یہودی بھی تھے۔ مگر ہم ثقافتی اور مذہبی تنوع کو صرف مغربی تہزیب سے کیوں جوڑتے ہیں؟ ہمیں اپنے شاندار تہذیبی تنوع پر فخر کیوں نہیں؟  ڈاکٹر شہریار کا کہنا تھا کہ ہم نے سوال اور انکار سے کنارہ کشی اختیار کی جسکی وجہ سے ہم تنزلی کا شکار ہو گئے۔ ہمیں اپنی اخلاقی قدروں پر بھی اعتماد نہیں رہا تو ہم نے اپنے بچوں کو خاموشی کا درس دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی معاشرے میں ایک مختلف شناخت اور مذہب کی وجہ سے انہیں یقیناﹰ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اسی صورت حال نے انہیں سوال کرنے، انکار کرنے اور ناانصافی کی مزاحمت کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دیا۔ فرحان مسعود کا کہنا تھا کہ انہیں بچپن میں امتیازی سلوک کا احساس ہوا لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کچھ بن کر دکھائیں گے۔ لہٰذا انہوں نے زبان سیکھنے پر توجہ دی اور مشکلات کو مواقع میں ڈھال لیا۔ قانون دان محترمہ مریم کا کہنا تھا کہ انہیں حصول تعلیم کی خاطر دوسرے شہر میں جا کر رہنا پڑا لیکن رشتہ داروں سے یہ بات چھپانا پڑی۔ ان کے مطابق پاکستانی تارکین وطن اپنے بچوں خصوصاﹰ لڑکیوں پر بھروسہ نہیں کرتے اور تعلیم مکمل کرنے کی بچائے انہیں کسی پاکستانی کزن سے شادی کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہریار کا کہنا تھا کہ پاکستانی اور مغربی اقدار کا ایک بڑا فرق یہ ہے کہ پاکستان میں بڑوں کے احترام کا ایک ’انتہائی فرسودہ‘ تصور قائم ہے۔ پاکستان میں سوال کرنے کو ’بدتمیزی‘ سمجھا جاتا ہے جبکہ یورپی معاشرے میں سوال کرنا ذہانت کی علامت ہے۔ مغرب میں آپ اپنے استاد کی رائے کو مسترد کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کر سکتے ہیں۔ یہ آزادی بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے اور اس کے اندر عزت نفس پیدا کرتی ہے۔ اس موقع پر بحث کا رخ تارکین وطن میں موجود احساس شکست، احساس کمتری، ڈپریشن، احساس محرومی اور احساس مظلومیت کی جانب مڑ گیا۔ شرکائے بحث متفق تھے کہ تارکین وطن خود کو ایک بیگانہ ثقافت کے نرغے میں محسوس کرتے ہیں جس سے بچاؤ کی تگ و دو میں وہ بعض اوقات زیادہ قدامت پسند بن جاتے ہیں۔ حاضرین کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی مذہبی اقدار اور ثقافتی شناخت پر فخر بھی ہونا چاہیے لیکن اپنے اندر بند ہونے کی بجائے خود اعتمادی کے ساتھ دیگر شناختوں سے میل ملاپ بھی کرنا چاہیے۔ اگر ہم نئے خیالات کو خوش آمدید نہیں کہیں گے تو مرکزی دھارے سے کٹتے چلے جائیں گے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، مقررین کا اتفاق رائے تھا کہ چند سماجی اور ثقافتی مسائل سے قطع نظر، مجموعی طور پر وہ مغربی معاشرے کے شکر گزار ہیں جہاں پاکستان جیسا مذہبی یا صنفی تعصب نہیں پایا جاتا۔  مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کو ناکام کرنے کے لیے ہمیں عملی طور پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ہر قسم کی مذہبی انتہا پسندی اور قدامت پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔ حاضرین نے سیمینار کے سہولت کار وحید بھٹی کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ ہمیں پاکستان کے ثقافتی اور مذہبی تنوع پر فخر کرنا چاہیے اور اسی کو اپنی اجتماعی قومی شناخت بنانا چاہیے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کرتے ہوئے، ہالینڈ کی معروف پاکستانی ایڈووکیٹ، محترمہ افشاں عالم خان کا کہنا تھا، ’’مہاجرت کوئی دوراہا نہیں بلکہ زندگی کا حصہ ہے۔ مسائل اور مشکلات ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ میں اگر پاکستان میں ہوتی تو بھی مجھے مسائل اور مواقع کا سامنا ہوتا۔‘‘ افشاں عالم کا مزید کہنا تھا، ’’کوئی بھی مسئلہ سیکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع بھی ہوتا ہے۔ مہاجرت بھی ایک موقع ہے خود کو اور دوسروں کو سمجھنے کا۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے احساس کمتری، احساس مظلومیت اور شکست خوردہ ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ ایک انسان کے طور پر میں نہ کسی سے برتر ہوں اور نہ کمتر۔ جب میں اپنی اور دوسری کی عزت کرنا سیکھوں گی تو دوسرے بھی میری عزت کریں گے۔‘‘

Courtesy: DW 

bottom of page